داستان فطرت ہے ظرف کی کہانی ہے
جتنا اتھلا دریا ہے اتنا تیز پانی ہے
جن لبوں نے سینچا ہے تشنگی کے خاروں کو
اب انہیں کے حصے میں جام کامرانی ہے
پھر سے کھلنے والا ہے کوئی تازہ گل شاید
باغباں کی پھر ہم پر خاصی مہربانی ہے
عقل کب سے بھٹکے ہے نفرتوں کی وادی میں
پیار کی مگر اب بھی دل پہ حکمرانی ہے
زخم کھاتے رہتے ہیں مسکراتے رہتے ہیں
ہم وفا شناسوں کی یہ ادا پرانی ہے
برف بن گئے ارماں منجمد ہوئے جذبے
زیست کے سمندر میں کتنا سرد پانی ہے
اپنے سائے سے ہم خود اے حیات ڈرتے ہیں
مصلحت کی دنیا میں کتنی بد گمانی ہے
غزل
داستان فطرت ہے ظرف کی کہانی ہے
حیات وارثی