داروئے ہوش ربا نرگس بیمار تو ہو
اب عناں گیر خرد گیسوئے خم دار تو ہو
حسن کا ناز تجلی ہے نیاز آمادہ
عشق آداب تمنا کے سزاوار تو ہو
جرأت شوق سے پندار کرم جھک کے ملے
حوصلہ مند کوئی ایسا گنہ گار تو ہو
لالہ کاری سے رگ جاں کے گلستاں لہکے
ہر نفس ایک لچکتی ہوئی تلوار تو ہو
دل سے وہ جلوہ گہہ ناز تو کچھ دور نہیں
سینۂ شوق میں اک جذبۂ بیدار تو ہو
نام محبوب پہ بے تاب نظارے ہوں گے
سجدہ گاہ دل و جاں کوچۂ دل دار تو ہو
ان حسیں آنکھوں میں مے خانہ کی شام رنگیں
جگمگائے گی مگر اخترؔ سرشار تو ہو
غزل
داروئے ہوش ربا نرگس بیمار تو ہو
اختر اورینوی