EN हिंदी
ڈار سے اس کی نہ عرفانؔ جدا کر اس کو | شیح شیری
Dar se uski na irfan juda kar usko

غزل

ڈار سے اس کی نہ عرفانؔ جدا کر اس کو

عرفانؔ صدیقی

;

ڈار سے اس کی نہ عرفانؔ جدا کر اس کو
کھول یہ بند وفا اور رہا کر اس کو

نظر آنے لگے اپنے ہی خد و خال زوال
اور دیکھا کرو آئینہ بنا کر اس کو

آخر شب ہوئی آغاز کہانی اپنی
ہم نے پایا بھی تو اک عمر گنوا کر اس کو

دیکھتے ہیں تو لہو جیسے رگیں توڑتا ہے
ہم تو مر جائیں گے سینے سے لگا کر اس کو

تیرے ویرانے میں ہونا تھا اجالا نہ ہوا
کیا ملا اے دل سفاک جلا کر اس کو

اور ہم ڈھونڈتے رہ جائیں گے خوشبو کا سراغ
ابھی لے جائے گی اک موج اڑا کر اس کو