دانشوروں کے بس میں یہ رد عمل نہ تھا
میں ایسی تیغ لے کے اٹھا جس میں پھل نہ تھا
کیا درد ٹوٹ ٹوٹ کے برسا ہے رات بھر
اتنا غبار تو مرے چہرے پہ کل نہ تھا
پتھراؤ کر رہا ہے وہ خود اپنی ذات پر
کیا دل کے مسئلے کا کوئی اور حل نہ تھا
شاخیں لدی ہوئی تھیں تو پتھر نہ تھا نصیب
پتھر پڑے ملے تو درختوں میں پھل نہ تھا
شب کی ہوا سے ہار گئی میرے دل کی آگ
یخ بستہ شہر میں کوئی رد و بدل نہ تھا
اب ایک ایک حرف سے چھنتی ہے روشنی
تم سے ملے نہ تھے تو یہ حسن غزل نہ تھا
قیصرؔ! ضمیر وقت کو دیکھا کرید کے
صدیاں رکھی تھیں دوش پہ مٹھی میں پل نہ تھا
غزل
دانشوروں کے بس میں یہ رد عمل نہ تھا
قیصر الجعفری