دانائیاں اٹک گئیں لفظوں کے جال میں
اتنے جواب گم ہیں مرے اک سوال میں
دریا بس اک قدم کبھی ساحل کی سمت آ
دیکھوں گا زور کتنا ہے تیرے ابال میں
کی احتیاط لاکھ مگر حال یہ ہوا
آنا تھا جن کو آ ہی گئے تیری چال میں
جی چاہتا ہے ترک محبت کو بار بار
آتا ہے ایک ایسا بھی لمحہ وصال میں
اب کیا اصول دشت نوردی کی بات ہو
الجھے پڑے ہیں پاؤں شکاری کے جال میں

غزل
دانائیاں اٹک گئیں لفظوں کے جال میں
حسنین عاقب