EN हिंदी
دانائیاں اٹک گئیں لفظوں کے جال میں | شیح شیری
danaiyan aTak gain lafzon ke jal mein

غزل

دانائیاں اٹک گئیں لفظوں کے جال میں

حسنین عاقب

;

دانائیاں اٹک گئیں لفظوں کے جال میں
اتنے جواب گم ہیں مرے اک سوال میں

دریا بس اک قدم کبھی ساحل کی سمت آ
دیکھوں گا زور کتنا ہے تیرے ابال میں

کی احتیاط لاکھ مگر حال یہ ہوا
آنا تھا جن کو آ ہی گئے تیری چال میں

جی چاہتا ہے ترک محبت کو بار بار
آتا ہے ایک ایسا بھی لمحہ وصال میں

اب کیا اصول دشت نوردی کی بات ہو
الجھے پڑے ہیں پاؤں شکاری کے جال میں