دامن پہ لہو ہاتھ میں خنجر نہ ملے گا
مل جائے گا پھر بھی وہ ستم گر نہ ملے گا
پتھر لیے ہاتھوں میں جسے ڈھونڈ رہا ہے
وہ تجھ کو تری ذات سے باہر نہ ملے گا
آنکھوں میں بسا لو یہ ابھرتا ہوا سورج
دن ڈھلنے لگے گا تو یہ منظر نہ ملے گا
میں اپنے ہی گھر میں ہوں مگر سوچ رہا ہوں
کیا مجھ کو مرے گھر میں مرا گھر نہ ملے گا
گزرو کسی بستی سے ذرا بھیس بدل کر
نقشے میں تمہیں شہر ستم گر نہ ملے گا
غزل
دامن پہ لہو ہاتھ میں خنجر نہ ملے گا
امیر قزلباش