دامن میں آنسو مت بونا
ہاتھ آئے موتی کیا کھونا
بھیگے کاغذ کی تحریر میں
دھوپ نکل آئے تو دھونا
چادر تو سرکاؤ سر سے
آنگن میں بکھرا ہے سونا
یہ محفل ہے ہنس لو گا لو
تنہائی میں کھل کر رونا
پیچھے مڑ کر دیکھنے والے
پتھر میں تبدیل نہ ہونا
اس سے کچھ کہنے کا مطلب
آنسو میں آواز بھگونا
غزل
دامن میں آنسو مت بونا
شہاب اختر