دامن ہے میرا دشت کا دامان دوسرا
میری طرح نہ پھاڑے گریبان دوسرا
یک رنگ ہوں میں اس گل رعنا کے عشق میں
بلبل نہ ہوں کہ ڈھونڈوں گلستان دوسرا
تھا ہی غم فراق ملا اس میں درد رشک
مفلس کے گھر میں آیا یہ مہمان دوسرا
تیری حیائے چشم سا دیکھا نہیں رقیب
یاں احتیاج کیا ہے نگہبان دوسرا
عریاں تنوں کے سر پہ تری خاک کور رہے
در کارواں نہیں سر و سامان دوسرا
کیجے ضمیر خاک کو آدم کی چھان اگر
اس شکل کا بن آوے نہ انسان دوسرا
جوع البقر رکھے یہ شیخ شکم پرست
اک خوان کھا کہے ہے کہاں خوان دوسرا
سیر عجب رکھے ہے تری جلوہ گاہ ناز
اس لطف کا کہاں ہے خیابان دوسرا
نقد دل اس کو دینا ہے حسرتؔ ثواب و فرض
اس زلف سا نہ ہوگا پریشان دوسرا
غزل
دامن ہے میرا دشت کا دامان دوسرا
حسرتؔ عظیم آبادی