دامن حسن میں ہر اشک تمنا رکھ دو
دین کی راہ میں ہنگامۂ دنیا رکھ دو
ظلم کے سامنے اخلاص کا پردہ رکھ دو
نوک ہر خار پہ برگ گل رعنا رکھ دو
اپنی تاریخ کے اوراق الٹنا ہیں اگر
گلشن عیش پہ تپتا ہوا صحرا رکھ دو
جس سے وابستہ رہے ڈوبنے والے کی امید
ایک تنکا ہی سہی تم لب دریا رکھ دو
تم جو چاہو کہ مرے لب بھی نہ کھلنے پائیں
میرے آگے مری تقدیر کا چہرہ رکھ دو
روز روشن کی طرح ہوں گی منور راتیں
چند شعلے جو سر بزم تمنا رکھ دو
ایک آواز سی آتی ہے حرم سے شاید
میکدے والو ذرا ساغر و مینا رکھ دو

غزل
دامن حسن میں ہر اشک تمنا رکھ دو
فطرت انصاری