دامان دل سے گرد تعلق کو جھاڑئیے
جوں سرو پاؤں باغ تجرد میں گاڑئیے
ممکن نہیں کہ دیکھیے روئے شگفتگی
جب تک برنگ غنچہ گریباں نہ پھاڑیے
جو کچھ کہ ہاتھ آئے اڑا دیجئے اسے
قاروں کی طرح مال زمیں میں نہ گاڑیئے
بستی میں دل کی حرص و ہوا کا قیام ہے
توفیق ہو رفیق تو اس کو اجاڑیے
ؔجوشش کوئی ہزار کرے یاں مخالفت
اپنی طرف سے تو نہ کسی سے بگاڑئیے
غزل
دامان دل سے گرد تعلق کو جھاڑئیے
جوشش عظیم آبادی