دائم ہو اس کے حسن کی نزہت خدا کرے
اور مجھ میں یہ جنون کی لذت خدا کرے
سنجیدگی کا رنگ ہو تھوڑا سا پیار میں
باقی مگر ہو رنگ شرارت خدا کرے
مدت سے کوئی تیر نہ خنجر نہ سنگ و خشت
دشمن ہو میرا زندہ سلامت خدا کرے
غمگین ہوں لطیفے ہیں پھر بھی زبان پر
قائم رہے یہ ذوق ظرافت خدا کرے
پوشیدہ ہیں گناہوں میں بربادیوں کے راز
نازل ہو دل پہ حرف ندامت خدا کرے
مجمع کی کیفیات کا منظر عجیب تھا
بڑھتا رہے یہ زور خطابت خدا کرے
کہتے ہیں اپنی اوروں کی سنتے نہیں ہیں لوگ
ہو جائے کاش شوق سماعت خدا کرے
کہتے ہیں اہل دین کہ تقویٰ ہی دین ہے
وہ جان جائیں کاش اقامت خدا کرے
میری دعا یہی ہے شریک سفر کے ساتھ
آ جائے ہم کو حسن نظامت خدا کرے
تخلیق ہے بلندیٔ افکار کی عطا
آئے ترے کلام میں رفعت خدا کرے
ہر شخص کاش سیکھ لے آداب پیار کے
دل میں نہ ہو کسی کے کدورت خدا کرے
جاویدؔ چھین سکتا ہے کیا کوئی اس کا رزق
جس شخص کی ہمیشہ کفالت خدا کرے

غزل
دائم ہو اس کے حسن کی نزہت خدا کرے
جاوید جمیل