داغوں سے دل و سینہ کے افروختہ جاں ہوں
گو میں چمن تازہ ہوں پر وقف خزاں ہوں
پہلو میں اگر دل ہے تو تو دل میں ہے میرے
گو ننگ خلائق ہوں مگر جان جہاں ہوں
جس خاک پہ میں بیٹھ گیا فتنہ اٹھایا
کس سرو خراماں کی کف پا کا نشاں ہوں
ہم راہ تمہارے ہوں کسی جا ہوں کہیں ہوں
سایہ کی طرح تم ہو جہاں میں بھی وہاں ہوں
یا رب ہو برا وحشت دل کا کہ نہیں چین
جب خاک ہوا مر کے تو اب ریگ رواں ہوں
کیا زیست ہے یہ خاک مری عاشق ناشاد
گہہ مصرف فریاد ہوں گہہ وقف فغاں ہوں
غزل
داغوں سے دل و سینہ کے افروختہ جاں ہوں
عاشق اکبرآبادی