داغہائے دل کی تابانی گئی
ان کے جلووں کی فراوانی گئی
آشنا نا آشنا سے ہو گئے
اپنی صورت بھی نہ پہچانی گئی
ایک دل میں سیکڑوں غم کا ہجوم
پھر بھی اس گھر کی نہ ویرانی گئی
اب کہاں وہ جذبۂ مہر و وفا
آدمی سے خوئے انسانی گئی
آئینے میں وقت کے اے ہم نفس
دوستوں کی شکل پہچانی گئی
رہ گئے ہوش و خرد کے فلسفے
جستجو تا حد امکانی گئی
میرؔ و غالبؔ وحشتؔ و داغؔ و جگرؔ
کیا گئے آسیؔ غزل خوانی گئی

غزل
داغہائے دل کی تابانی گئی
یعقوب علی آسی