EN हिंदी
داغ دل اپنا کسی طرح دکھائے نہ بنے | شیح شیری
dagh-e-dil apna kisi tarah dikhae na bane

غزل

داغ دل اپنا کسی طرح دکھائے نہ بنے

ماہر آروی

;

داغ دل اپنا کسی طرح دکھائے نہ بنے
اور چاہوں جو چھپانا تو چھپائے نہ بنے

دامن دل میں وہ جب چاہیں لگا دیں اک آگ
ہم اگر چاہیں بجھانا تو بجھائے نہ بنے

تم کو منظور نہیں اپنے تغافل سے گریز
ہم پہ بن آئی ہے ایسی کہ بنائے نہ بنے

اف رے یہ تیرہ نصیبی یہ اندھیرے کا فروغ
دیپ آنکھوں کا جلاؤں تو جلائے نہ بنے

ہائے یہ فطرت حسن اف وہ مزاج نازک
ناز اٹھانا بھی جو چاہوں تو اٹھائے نہ بنے

سوچ کے دیجئے دیوانے کو دامن کی ہوا
یہ بھی ممکن ہے کہ پھر ہوش میں آئے نہ بنے

ناز ہے طاقت گفتار پہ ماہرؔ کو مگر
دل پہ گزری ہے کچھ ایسی کہ سنائے نہ بنے