داد ملتی نظر اہل نظر سے پہلے
موت آتی جو کہیں دل کو جگر سے پہلے
تصفیہ کرتے نہ ہنگام سحر سے پہلے
پوچھ لیتے کسی مایوس نظر سے پہلے
میرا مرنا تمہیں ہو جائے گا خود ہی معلوم
دل تڑپ اٹھے گا سینے میں خبر سے پہلے
تم تو کہتے تھے کہ میں درد کا قائل ہی نہیں
کون چیخا مرے نالوں کے اثر سے پہلے
نام جس چیز کا ہے موت جہاں میں مشہور
واقعہ یہ تو ہوا درد جگر سے پہلے
آج کی رات تو کچھ اور خبر دیتی ہے
ہو مناسب تو چلے آنا سحر سے پہلے
ایک بجلی سی مری آنکھوں کے اندر کوندی
اور ارادہ جو ہوا عزم سفر سے پہلے
روئی مجبوریوں پر چارہ گروں کی قسمت
مر گیا آپ کا بیمار سحر سے پہلے
میں بھی سمجھا ہوں ترے نقش قدم کا مطلب
میں بھی گزرا تھا اسی راہ گزر سے پہلے
غزل
داد ملتی نظر اہل نظر سے پہلے
میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی