چور تھے لوگ جو سنگینیٔ ہجرت سے یہاں
سانس بھی آتا نہیں ان کو سہولت سے یہاں
وہ کسی پھول کسی غنچے کے حق دار نہیں
دشت گلزار بناتے ہیں جو محنت سے یہاں
چوغا پہنایا گیا جھوٹ کا سچائی کو
اور معانی لیے نفرت کے محبت سے یہاں
ہم نے بنیاد رکھی زہر بجھے سجدوں کی
تیغ کا کام لیا ہم نے عبادت سے یہاں
ہاتھ حالات نے ڈالے ہیں گریبانوں میں
زندگی کیسے گزارے کوئی عزت سے یہاں
پیٹ پہ باندھا گیا صبر کا بھاری پتھر
اور گزارا گیا ہر لمحہ مشقت سے یہاں
صاحب منبر و محراب بھی کیا بھوکا ہے
پیٹ کی آگ بجھاتا ہے شریعت سے یہاں
سانس چبھتا رہا کانٹے کی طرح دل میں نبیلؔ
جسم ڈھلتے رہے چھالوں میں اذیت سے یہاں

غزل
چور تھے لوگ جو سنگینیٔ ہجرت سے یہاں
نبیل احمد نبیل