چور صدموں سے ہو بعید نہیں
آبگینہ ہے دل حدید نہیں
مے کشی کیا کرے بھلا زاہد
مغفرت کی اسے امید نہیں
چار سو ہے اندھیرا آنکھوں میں
چار دن سے جو اس کی دید نہیں
میرے آگے ملی وہ غیروں سے
ہے محرم مجھے یہ عید نہیں
قتل عالم ہے تیرے ابرو پر
کوئی تلوار سے شہید نہیں
اپنے دل سے مجھے ارادت ہے
میں کسی پیر کا مرید نہیں
دل کسی سے لگے تو کیا چھوٹے
کوئی اس قفل کی کلید نہیں
دیکھ لے مر کے سختیٔ سکرات
صدمۂ ہجر سے شدید نہیں
وصل جاناں ہے صیغۂ تہمت
کہ مجرد ہیں ہم مزید نہیں
عشق کیا درد ہے خداوندا
کوئی دارو دوا مفید نہیں
نحن اقرب دلیل ہے اے بحرؔ
یار نزدیک ہے بعید نہیں
غزل
چور صدموں سے ہو بعید نہیں
امداد علی بحر