چور انا کر دی پتھر پن توڑ دیا
آگ نے کچھ پل میں پگھلا کر لوہا موڑ دیا
فکر مجھے اپنے بچوں کے سر کی ہوتی تھی
جرجر گھر تھا سچائی کا آخر چھوڑ دیا
اپنے چاروں اور اٹھا دی میں نے دیواریں
اک سوراخ مگر ماضی کا اس میں چھوڑ دیا
نوچ گھروندا بھی نہ بھرا جب اس بندر کا جی
اس نے پھر چڑیا کا اک اک انڈا پھوڑ دیا
پیچھے پیچھے گھر آ جاتے ہیں کچھ پالتو ڈر
لاکھ انہیں میں نے رستہ بھٹکا کر چھوڑ دیا
روز و شب کے امتحان سے عاجز آ کر آج
پھاڑ دیا پرچہ میں نے اتر موڑ دیا
غزل
چور انا کر دی پتھر پن توڑ دیا
سوربھ شیکھر