چٹکیاں لیتی ہے گویائی کسے آواز دوں
کس کو ہے توفیق شنوائی کسے آواز دوں
سر میں سودا ہے نہ دل میں آرزو کس سے کہوں
جلوتیں مانگے ہے تنہائی کسے آواز دوں
اپنی نظروں میں تو میرا زعم ہستی لغو ہے
کس سے پوچھوں اپنی سچائی کسے آواز دوں
بیچ دوں گا میں ضمیر اپنا اگر تسکیں ملے
اے مسلسل روح فرسائی کے آواز دوں
میری حسرت کوئی پوچھے مجھ سے میرا حال دل
لوگ اپنے اپنے شیدائی کسے آواز دوں
آزمائش کا یہ پہلو بھی ہے کیا معلوم تھا
کامرانی کی گھڑی آئی کسے آواز دوں
کس کے نام آخر کروں حیرتؔ میں اپنی وحشتیں
منتظر ہے دشت پیمائی کسے آواز دوں
غزل
چٹکیاں لیتی ہے گویائی کسے آواز دوں
بلراج حیات