چرانے کو چرا لایا میں جلوے روئے روشن سے
مگر اب بجلیاں لپٹی ہوئی ہیں دل کے دامن سے
تنوع کچھ تو ہو اے بلبل کم ذوق ماتم کیا
اگر تعمیر صحرا ہو گئی تخریب گلشن سے
مجھے کچھ تجربے ہر رنگ کے جھولی میں رکھ چلنا
مسافر ہوں غرض کیا ہے مجھے صحرا و گلشن سے
مجھے ہر کارواں سے چھوٹنا اس بدگمانی میں
کہ شاید راہبر کو ربط پنہانی ہو رہزن سے
مذاق جذب باطن گم ہے اب تزئین ظاہر میں
یہ طفل دشت ایمن گھٹ گیا تہذیب گلشن سے
غزل
چرانے کو چرا لایا میں جلوے روئے روشن سے
اجتبیٰ رضوی