چرا نہ آنکھ کو ساقی کہ بادہ نوش ہوں میں
ابھی تو فیصلہ ہوتا ہے ایک ساغر پر
مریض عشق کی حالت کبھی نہ سنبھلے گی
مجھے تو چھوڑ دے اے چارہ گر مقدر پر
ہمارے نالے بھی تھک تھک کے اب تو بیٹھ رہے
گئے وہ دن کہ اٹھاتے تھے آسماں سر پر
ہمارے مے کدہ کو چھوڑ کر نہ جا زاہد
ملے گا قطرہ نہ کمبخت حوض کوثر پر
گلہ نہ ہم نے کیا شوقؔ اس ستم گر سے
بلائیں سب وہ اٹھائیں جو آ پڑیں سر پر

غزل
چرا نہ آنکھ کو ساقی کہ بادہ نوش ہوں میں (ردیف .. ر)
پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق