چپکے سے دماغ میں در آئے
یادوں کے سفیر بن بلائے
کب تک دکھ کا دھواں دھواں سا
کب تک غم کے مہیب سائے
بہروپیو روپ کی دہائی
تسکین نظر کو کوئی آئے
بیٹھے ہیں قدم قدم پہ نقاد
تائید کی مشعلیں جلائے
دامان خرد نے یہ ہوا دی
جتنے تھے چراغ سب بجھائے
آنکھوں سے نکل گیا اندھیرا
تارے سے پلک پہ جگمگائے
گلشن گلشن کھنگال ڈالا
خوشبو خوشبو پکار آئے
اس کوہ خرد کو میں کروں کیا
دیوانے سے کب اٹھایا جائے
ہوں بوئے گل خزاں گزیدہ
کوئی جسے ڈھونڈے بھی نہ پائے
پت جھڑ کو رہنما بنا کر
کلیوں نے عجیب گل کھلائے
دربار سخنوراں میں تنہا
بیٹھا ہے رضا بھی سر جھکائے
غزل
چپکے سے دماغ میں در آئے
کالی داس گپتا رضا