چپ ہیں حضور مجھ سے کوئی بات ہو گئی
یا پھر کسی سے آج ملاقات ہو گئی
تازہ لگی تھی چوٹ کہ موسم بدل گیا
اور دیکھتے ہی دیکھتے برسات ہو گئی
یوں تو دیے فریب کسی اور نے انہیں
لیکن گناہ گار مری ذات ہو گئی
آئے تو دل میں پیار کا چشمہ ابل پڑا
اور چل دیے تو درد کی بہتات ہو گئی
چنتے ہو تیرگی میں بھی تازہ غزل کے پھول
کیا سوچ تیری واقف حالات ہو گئی
ہم نے کیا سوال تو وہ چپ رہے حسنؔ
لو آج اپنی بات خرافات ہو گئی
غزل
چپ ہیں حضور مجھ سے کوئی بات ہو گئی
حسن رضوی