چوب صحرا بھی وہاں رشک ثمر کہلائے
ہم خزاں بخت شجر ہو کے حجر کہلائے
ہم تہ خاک کئے جاں کا عرق ان کے لیے
اور پس راہ وفا گرد سفر کہلائے
ان کی پوروں میں ستارے بھی ہیں انگارے بھی
وہ صدف جسم ہوئے آتش تر کہلائے
اپنی راہوں کا گلستان لگے ویرانہ
ان کی دہلیز کی مٹی بھی گہر کہلائے
جن کی خیرات سے لمحوں کی لویں جاگتی ہیں
شب نژادوں میں وہی دست نگر کہلائے
ان کے کتبے پہ یہی وقت نے لکھا ہے کہ وہ
روشنی بانٹتے تھے تیرہ نظر کہلائے
وہ تو دیواروں میں چنتا ہے زمانے کا ضمیر
ہم ہی کیا سنگ سر راہ گزر کہلائے
شادؔ بے صرفہ گیا عمر کا سرمایۂ حرف
ہم کہ تھے جان صدا گنگ ہنر کہلائے
غزل
چوب صحرا بھی وہاں رشک ثمر کہلائے
عطا شاد