چھو کے گزرا مجھے زمانہ سا
پیرہن ہو گیا پرانا سا
اک پرانا سا ربط ہے اس سے
اک تعلق ہے غائبانہ سا
ایک قطرہ صدف میں کیا اترا
کھل گیا ایک کارخانہ سا
دل کی ٹوٹی فصیل میں اب بھی
ایک در وا ہے عارفانہ سا
اب بھی اس کی گلی میں مڑتا ہے
دل سے اک راستہ پرانا سا
تھی نظر اس پہ دشمنوں جیسی
عشق جس سے تھا والہانہ سا
خامشی گھر کی ڈر ہی ہے شہابؔ
دور اک شور ہے سہانا سا
غزل
چھو کے گزرا مجھے زمانہ سا
مصطفی شہاب