EN हिंदी
چھٹی امید تو میں حال دل کہنے سے کیوں ڈرتا | شیح شیری
chhuTi ummid to main haal-e-dil kahne se kyun Darta

غزل

چھٹی امید تو میں حال دل کہنے سے کیوں ڈرتا

صفی اورنگ آبادی

;

چھٹی امید تو میں حال دل کہنے سے کیوں ڈرتا
مثل مشہور ہے سرکار مرتا کیا نہیں کرتا

بہت اچھا ہوا دشمن نے مجھ سے دشمنی کر لی
سوا میرے نہ جانے اور کس کس کو یہ لے مرتا

اگر دشمن سے ایسے پیش آتے تو مزہ پاتے
کروں کیا عرض جو برتاؤ مجھ سے آپ نے برتا

کسی پیماں شکن نے رکتے رکتے بات تو کر لی
جو وعدے ہی پہ ہم اڑتے تو یہ کرتا نہ وہ کرتا

نہیں مجھ سے تری بے اعتنائی قابل حیرت
غریب انسان دنیا کی نگاہوں میں نہیں بھرتا

صفیؔ نے ٹھوکریں کھا کے بھی اپنی وضع کب بدلی
سمجھ والا اگر ہوتا حسینوں سے بہت ڈرتا