چھٹی امید تو میں حال دل کہنے سے کیوں ڈرتا
مثل مشہور ہے سرکار مرتا کیا نہیں کرتا
بہت اچھا ہوا دشمن نے مجھ سے دشمنی کر لی
سوا میرے نہ جانے اور کس کس کو یہ لے مرتا
اگر دشمن سے ایسے پیش آتے تو مزہ پاتے
کروں کیا عرض جو برتاؤ مجھ سے آپ نے برتا
کسی پیماں شکن نے رکتے رکتے بات تو کر لی
جو وعدے ہی پہ ہم اڑتے تو یہ کرتا نہ وہ کرتا
نہیں مجھ سے تری بے اعتنائی قابل حیرت
غریب انسان دنیا کی نگاہوں میں نہیں بھرتا
صفیؔ نے ٹھوکریں کھا کے بھی اپنی وضع کب بدلی
سمجھ والا اگر ہوتا حسینوں سے بہت ڈرتا

غزل
چھٹی امید تو میں حال دل کہنے سے کیوں ڈرتا
صفی اورنگ آبادی