EN हिंदी
چھپی ہے تجھ میں کوئی شے اسے نہ غارت کر | شیح شیری
chhupi hai tujh mein koi shai use na ghaarat kar

غزل

چھپی ہے تجھ میں کوئی شے اسے نہ غارت کر

راجیندر منچندا بانی

;

چھپی ہے تجھ میں کوئی شے اسے نہ غارت کر
جو ہو سکے تو کہیں دل لگا محبت کر

ادا یہ کس کٹے پتے سے تو نے سیکھی ہے
ستم ہوا کا ہو اور شاخ سے شکایت کر

نہ ہو مخل مرے اندر کی ایک دنیا میں
بڑی خوشی سے بر و بحر پر حکومت کر

وہ اپنے آپ نہ سمجھے گا تیرے دل میں ہے کیا
خلش کو حرف بنا حرف کو حکایت کر

مرے بنائے ہوئے بت میں روح پھونک دے اب
نہ ایک عمر کی محنت مری اکارت کر

کہاں سے آ گیا تو بزم کم یقیناں میں
یہاں نہ ہوگا کوئی خوش ہزار خدمت کر

کچھ اور چیزیں ہیں دنیا کو جو بدلتی ہیں
کہ اپنے درد کو اپنے لیے عبارت کر

نہیں عجب اسی پل کا ہو منتظر وہ بھی
کہ چھو لے اس کے بدن کو ذرا سی ہمت کر

خلوص تیرا بھی اب زد میں آ گیا بانیؔ
یہاں یہ روز کے قصے ہیں جی برا مت کر