چھپے ہوئے تھے جو نقد شعور کے ڈر سے
نکل سکے نہ وہ جذبات میرے اندر سے
کبھی بھی شہر طلسمات دل کی سیر نہ کی
ہر ایک جلوہ لیا مستعار باہر سے
رہے ہم اپنی ہی گہرائیوں سے ناواقف
اتر سکی نہ کبھی کائی سطح دل پر سے
سکوں کی جنتیں دوزخ نہیں اذیت کا
عجیب حال ہوا آگہی کے محشر سے
ہماری بچوں سی معصومیت ہوئی زخمی
لہولہان ہوا دل خرد کے پتھر سے
نظر سے دیکھ لو ہم ریت کے گھروندوں کو
ہمیں نہ چھوؤ کہ ہم کھوکھلے ہیں اندر سے
ہماری کوشش بے سود اس کو کیا پاتی
حصول جس کا تھا ممکن فقط مقدر سے
ریاضؔ شام ڈھلی اب تو گھر کو لوٹ چلو
طلوع صبح سے پہلے کے نکلے ہو گھر سے
غزل
چھپے ہوئے تھے جو نقد شعور کے ڈر سے
ریاض مجید