EN हिंदी
چھپے ہوئے تھے جو دل میں وہ ڈر پرانے تھے | شیح شیری
chhupe hue the jo dil mein wo Dar purane the

غزل

چھپے ہوئے تھے جو دل میں وہ ڈر پرانے تھے

محسن احسان

;

چھپے ہوئے تھے جو دل میں وہ ڈر پرانے تھے
کہ راستے تھے نئے ہم سفر پرانے تھے

میں اڑ رہا تھا فضا میں اک احتیاط کے ساتھ
مجھے خبر تھی مرے بال و پر پرانے تھے

تمام شہر نئی روشنی میں تھا ملبوس
مگر گھروں کے سبھی بام و در پرانے تھے

مجھے تلاش ہمیشہ نئے چراغوں کی تھی
کہ آسمانوں کے شمس و قمر پرانے تھے

تھی جن کی لو سے دیار سخن میں تابانی
وہ طاق طاق چراغ ہنر پرانے تھے