چھپے ہوئے تھے جو دل میں وہ ڈر پرانے تھے
کہ راستے تھے نئے ہم سفر پرانے تھے
میں اڑ رہا تھا فضا میں اک احتیاط کے ساتھ
مجھے خبر تھی مرے بال و پر پرانے تھے
تمام شہر نئی روشنی میں تھا ملبوس
مگر گھروں کے سبھی بام و در پرانے تھے
مجھے تلاش ہمیشہ نئے چراغوں کی تھی
کہ آسمانوں کے شمس و قمر پرانے تھے
تھی جن کی لو سے دیار سخن میں تابانی
وہ طاق طاق چراغ ہنر پرانے تھے
غزل
چھپے ہوئے تھے جو دل میں وہ ڈر پرانے تھے
محسن احسان