چھپائے دل میں ہم اکثر تری طلب بھی چلے
کبھی کبھی ترے ہم راہ بے سبب بھی چلے
نمود گل کے کرشمے سدا جلو میں رہے
نسیم بن کے چلے ہم چمن میں جب بھی چلے
جلاؤ خون شہیداں سے ارتقا کے چراغ
یہ رسم چلتی رہی ہے یہ رسم اب بھی چلے
سنا ہے جادہ نوردان صبح کے ہم راہ
بہ فیض وقت کئی رہروان شب بھی چلے
ہے شور شبنم آسودگی کے دوش بدوش
گل آج لے کے کہیں شعلۂ غضب بھی چلے
کسی کا حکم زبان بندیٔ جنوں بھی چلا
کسی کے قصے سخن بن کے زیر لب بھی چلے
ہمیں نے ساغر غم منتخب کیا عارفؔ
وگرنہ بزم میں کچھ ساغر طرب بھی چلے
غزل
چھپائے دل میں ہم اکثر تری طلب بھی چلے
عارف عبدالمتین