چھپا کر اپنی کرتوتیں ہنر کی بات کرتے ہیں
شجر کو کاٹنے والے ثمر کی بات کرتے ہیں
جلے ہیں جو نشیمن راکھ پر ان کی کھڑے ہو کر
جنہوں نے پھونک ڈالے گھر وہ گھر کی بات کرتے ہیں
عناصر جس کے تھے مہر و وفا شفقت ادب غیرت
انہیں جو بھول بیٹھا اس بشر کی بات کرتے ہیں
گھرے ہیں مدتوں سے جو اندھیروں میں مصائب کے
نہیں آتی کبھی جو اس سحر کی بات کرتے ہیں
سبھی سے بزم میں ہنس کر ملی بے ساختہ لیکن
نہیں ہم پر پڑی جو اس نظر کی بات کرتے ہیں
ہوئے تقسیم جب سے دشمنی قائم بھی ہے لیکن
ادھر والے ہماری ہم ادھر کی بات کرتے ہیں
نہیں ہے رابطہ جن کا اثرؔ پیروں کے چھالوں سے
گھروں سے جو نہیں نکلے سفر کی بات کرتے ہیں

غزل
چھپا کر اپنی کرتوتیں ہنر کی بات کرتے ہیں
پرمود شرما اثر