چھپا ہے کرب مسلسل ہوا کے لہجے میں
کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں
میں اس کی قدر کروں گا جو میرے عیبوں کو
مرے ہی منہ پہ کہے آشنا کے لہجے میں
زمانہ آج بھی قاصر ہے یہ سمجھنے سے
سفر کی بات ہوئی کیوں ہوا کے لہجے میں
ہمارے درد کا اندازہ اس کو کیا ہوگا
کہ اشک ہوتے نہیں ہیں وفا کے لہجے میں
ہے اعتراف کہ اکثر الجھ پڑے جس سے
وہ مہربان ہوا ہے دعا کے لہجے میں
مری نظر میں رہا ہے جو محترم انجمؔ
وہی ہے مجھ سے مخاطب سزا کے لہجے میں

غزل
چھپا ہے کرب مسلسل ہوا کے لہجے میں
غیاث انجم