EN हिंदी
چھپا ہے کرب مسلسل ہوا کے لہجے میں | شیح شیری
chhupa hai karb-e-musalsal hawa ke lahje mein

غزل

چھپا ہے کرب مسلسل ہوا کے لہجے میں

غیاث انجم

;

چھپا ہے کرب مسلسل ہوا کے لہجے میں
کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں

میں اس کی قدر کروں گا جو میرے عیبوں کو
مرے ہی منہ پہ کہے آشنا کے لہجے میں

زمانہ آج بھی قاصر ہے یہ سمجھنے سے
سفر کی بات ہوئی کیوں ہوا کے لہجے میں

ہمارے درد کا اندازہ اس کو کیا ہوگا
کہ اشک ہوتے نہیں ہیں وفا کے لہجے میں

ہے اعتراف کہ اکثر الجھ پڑے جس سے
وہ مہربان ہوا ہے دعا کے لہجے میں

مری نظر میں رہا ہے جو محترم انجمؔ
وہی ہے مجھ سے مخاطب سزا کے لہجے میں