چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی
انتہا تھی یہ دل ربائی کی
مائل غمزہ ہے وہ چشم سیاہ
اب نہیں خیر پارسائی کی
ہم سے کیونکر وہ آستانہ چھٹے
مدتوں جس پہ جبہ سائی کی
دل نے برسوں بہ جستجوئے کمال
کوچۂ عشق میں گدائی کی
دام سے ان کے چھوٹنا تو کہاں
یاں ہوس بھی نہیں رہائی کی
کیا کیا یہ کہ اہل شوق کے ساتھ
تو نے کی بھی تو بے وفائی کی
ہو کے نادم وہ بیٹھے ہیں خاموش
صلح میں شان ہے لڑائی کی
اس تغافل شعار سے حسرتؔ
ہم میں طاقت نہیں جدائی کی
غزل
چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی
حسرتؔ موہانی