چھپ چھپ کے تو شادؔ اس سے ملاقات کرے ہے
نادان وہ اک اک سے تری بات کرے ہے
کچھ میرے بگڑنے سے چلے جاتے تھے اطوار
اچھا ہے جو تو ترک عنایات کرے ہے
تو مجھ سے جو کرتا ہے وہ رہتی ہے مجھی تک
جو میں کروں اک اک سے تو وہ بات کرے ہے
رنجش سے تو نفرت کی خلیج اور بڑھے گی
آ پیار کریں پیار کرامات کرے ہے
جو ابر بھی اٹھتا ہے کسی وادئ غم سے
وہ کشت مسرت ہی پہ برسات کرے ہے
ڈھیٹائی تو اس دور میں پنپے پھلے پھولے
رو رو کے شرافت بسر اوقات کرے ہے
دیتا بھی جو ہے شادؔ صلہ کوئی وفا کا
تو اس طرح جیسے کوئی خیرات کرے ہے

غزل
چھپ چھپ کے تو شادؔ اس سے ملاقات کرے ہے
شاد بلگوی