چھوٹے چھوٹے سے مفادات لیے پھرتے ہیں
در بدر خود کو جو دن رات لیے پھرتے ہیں
اپنی مجروح اناؤں کو دلاسے دے کر
ہاتھ میں کاسۂ خیرات لیے پھرتے ہیں
شہر میں ہم نے سنا ہے کہ ترے شعلہ نوا
کچھ سلگتے ہوئے نغمات لیے پھرتے ہیں
مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے
منفرد ہم غم حالات لیے پھرتے ہیں
ایک ہم ہیں کہ غم دہر سے فرصت ہی نہیں
ایک وہ ہیں کہ غم ذات لیے پھرتے ہیں
غزل
چھوٹے چھوٹے سے مفادات لیے پھرتے ہیں
اعتبار ساجد