چھوڑیئے کس طرح سے مے نوشی
زور عالم رکھے ہے بے ہوشی
اک نظر اس کو دیکھنے پائیں
گو میسر نہ ہو ہم آغوشی
قید کرنا کسی کو ہے منظور
زلف کرتی ہے تجھ سے سرگوشی
ہوں میں سرگشتہ مثل ریگ رواں
کیا کہوں اپنی خانہ بردوشی
وصف میں اس دہن کے اے ؔجوشش
ہم نے کی اختیار خاموشی

غزل
چھوڑیئے کس طرح سے مے نوشی
جوشش عظیم آبادی