چھوڑیئے باقی بھی کیا رکھا ہے ان کے قہر میں
جان درویشوں کو پیاری ہے ہمارے شہر میں
دیکھیے کیا حشر ہوتا ہے ہمارا دہر میں
شہریاری کی تمنا اور تیرے شہر میں
دیکھنے والے کو سارا ہی سمندر چاہئے
سوچنے والا سمندر سوچ لے اک لہر میں
دیکھیے تاثیر خالی زہر میں ہوتی نہیں
زندگی سوکھی ملا کر کھائیے گا زہر میں
ان سے یوں تشبیہ دیتا ہوں کہ وہ بھی دور ہیں
ورنہ کیا ملتا ہے تجھ میں اور ماہ و مہر میں
تنگئ ہیئت سے ٹکراتا ہوا جوش مواد
شاعری کا لطف آ جاتا ہے چھوٹی بحر میں
غزل
چھوڑیئے باقی بھی کیا رکھا ہے ان کے قہر میں
شجاع خاور