چھوڑا نہ مجھے دل نے مری جان کہیں کا
دل ہے کہ نہیں مانتا نادان کہیں کا
جائیں تو کہاں جائیں اسی سوچ میں گم ہیں
خواہش ہے کہیں کی تو ہے ارمان کہیں کا
ہم ہجر کے ماروں کو کہیں چین کہاں ہے
موسم نہیں جچتا ہمیں اک آن کہیں کا
اس شوخئ گفتار پر آتا ہے بہت پیار
جب پیار سے کہتے ہیں وہ شیطان کہیں کا
یہ وصل کی رت ہے کہ جدائی کا ہے موسم
یہ گلشن دل ہے کہ بیابان کہیں کا
کر دے نہ اسے غرق کوئی ندی کہیں کی
خود کو جو سمجھ بیٹھا ہے بھگوان کہیں کا
اک حرف بھی تحریف زدہ ہو تو دکھائے
لے آئے اٹھا کر کوئی قرآن کہیں کا
محبوب نگر ہو کہ غزل گانو ہو راغبؔ
دستور محبت نہیں آسان کہیں کا
غزل
چھوڑا نہ مجھے دل نے مری جان کہیں کا
افتخار راغب