EN हिंदी
چھوڑ کر وہ ہم کو تنہا کس جہاں میں جا بسا | شیح شیری
chhoD kar wo hum ko tanha kis jahan mein ja basa

غزل

چھوڑ کر وہ ہم کو تنہا کس جہاں میں جا بسا

شہزاد حسین سائل

;

چھوڑ کر وہ ہم کو تنہا کس جہاں میں جا بسا
لاکھ اس کو ملنا چاہا پر رہا وہ نارسا

سچ ہی کہتا تھا ہمیں وہ چھوڑ جب میں جاؤں گا
مجھ کو ڈھونڈا تم کرو گے ہر گلی میں جا بہ جا

تب ہمیں دکھلاوا لگتا تھا وہ ماتھا چومنا
آج جس کے واسطے ہے دل میں میرے اشتہا

چھوڑ کر جب وہ گیا تب سارے دشمن ہو گئے
پھر ہمیں رسوا کیا تھا مل کے سب نے ناروا

تیرے ہوتے تو نہ ہمت تھی کسی کی کچھ کہے
بعد تیرے سب کے لہجے ہو گئے تھے ناروا

کس طرح ٹوٹی قیامت ہم سے مت یہ پوچھنا
اب نہیں ہے صبر باقی درد کی ہے انتہا

اے خدا شکوہ نہیں سائلؔ کو تیری ذات سے
ماں مری کو بخش دے تو تجھ سے ہے بس یہ دعا