چھوڑ کر گھر بار اپنا حسرت دیدار میں
اک تماشہ بن کے آ بیٹھا ہوں کوئے یار میں
دم نکل جائے گا حسرت سے نہ دیکھ اے ناخدا
اب مری قسمت پہ کشتی چھوڑ دے منجدھار میں
دیکھ بھی آ بات کہنے کے لئے ہو جائے گی
صرف گنتی کی ہیں سانسیں اب ترے بیمار میں
فصل گل میں کس قدر منحوس ہے رونا مرا
میں نے جب نالے کئے بجلی گری گل زار میں
جل گیا میرا نشیمن یہ تو میں نے سن لیا
باغباں تو خیریت سے ہے صبا گل زار میں
غزل
چھوڑ کر گھر بار اپنا حسرت دیدار میں
قمر جلالوی