EN हिंदी
چھوڑ ہر ایک کو برا کہنا | شیح شیری
chhoD har ek ko bura kahna

غزل

چھوڑ ہر ایک کو برا کہنا

صفی اورنگ آبادی

;

چھوڑ ہر ایک کو برا کہنا
ایسی صورت پہ تجھ کو کیا کہنا

بے وفاؤں کو با وفا کہنا
آپ کی بات واہ کیا کہنا

تم نے کیا عیب ہم میں دیکھا ہے
دیکھو اچھا نہیں برا کہنا

میں نے کیا کیا کہا ہے لوگوں سے
ایک بار اور پھر ذرا کہنا

جانتے کب ہیں مجھ کو اپنا دوست
مانتے کب ہیں وہ مرا کہنا

مجھ کو غصے سے دیکھ کر نہ رکو
دل میں جو کچھ بھی آ گیا کہنا

میں محبت میں کیا کروں انصاف
کوئی انصاف سے ذرا کہنا

آپ کو آج تک نہیں آیا
واقعہ سب سے ایک سا کہنا

خوب نقلیں اتارتے ہیں آپ
آفریں واہ واہ کیا کہنا

کیا کہا میں کبھی نہیں سنتا
اور پھر اس پہ آپ کا کہنا

ان کو کہنا سلام اے قاصد
اور دربان کو دعا کہنا

اے صفیؔ ہے ابھی تو دلی دور
کون کہتا ہے آ گیا کہنا