چھوڑ گیا وہ نقش ہنر اپنا طغیانی میں
ایک شناور تھا جو اترا گہرے پانی میں
پھیلا ہوا تھا دام فلک بھی آئینہ صورت
اس نے بھی پرواز بھری تھی کچھ حیرانی میں
دود چراغ صبح میں جیسے سہمی سمٹی رات
روشن ہے فانی منظر اس کا لا فانی میں
تھکی تھکی آنکھوں میں پریشاں اس کا خواب وصال
ہجر کی لمبی رات کٹی بس ایک کہانی میں
سایۂ عرض و طلب کو روندا اس نے پیروں سے
اس کی انا کا سورج تھا اس کی پیشانی میں
اب اس کے اظہار کو دینا چاہے جو بھی نام
اس کو جو کہنا تھا کہہ گیا اپنی بانی میں
اک اک کر کے رمزؔ بجھے جاتے ہیں سارے چراغ
میں ہوں اپنا خوف اپنی بڑھتی ویرانی میں
غزل
چھوڑ گیا وہ نقش ہنر اپنا طغیانی میں
محمد احمد رمز