چھوڑ دے مار لات دنیا کو
کچھ نہیں ہے ثبات دنیا کو
ہاتھ آئی ہے جس کو دولت فقر
ان نے ماری ہے لات دنیا کو
زال دنیا ہی سا ہے وہ بد ذات
جو کہے نیک ذات دنیا کو
دام الفت میں سب کو کھینچے ہے
آ گئی ہے یہ گھات دنیا کو
پشت پا مارے مسند جم پر
جو لگائے نہ ہاتھ دنیا کو
تو جو مرتا ہے اس پر اے ؔجوشش
لے گیا کوئی ساتھ دنیا کو

غزل
چھوڑ دے مار لات دنیا کو
جوشش عظیم آبادی