EN हिंदी
چھوڑ دے مار لات دنیا کو | شیح شیری
chhoD de mar lat duniya ko

غزل

چھوڑ دے مار لات دنیا کو

جوشش عظیم آبادی

;

چھوڑ دے مار لات دنیا کو
کچھ نہیں ہے ثبات دنیا کو

ہاتھ آئی ہے جس کو دولت فقر
ان نے ماری ہے لات دنیا کو

زال دنیا ہی سا ہے وہ بد ذات
جو کہے نیک ذات دنیا کو

دام الفت میں سب کو کھینچے ہے
آ گئی ہے یہ گھات دنیا کو

پشت پا مارے مسند جم پر
جو لگائے نہ ہاتھ دنیا کو

تو جو مرتا ہے اس پر اے ؔجوشش
لے گیا کوئی ساتھ دنیا کو