چھن گئی تیری تمنا بھی تمنائی سے
دل بہلتے ہیں کہیں حوصلہ افزائی سے
کیسا روشن تھا ترا نیند میں ڈوبا چہرہ
جیسے ابھرا ہو کسی خواب کی گہرائی سے
وہی آشفتہ مزاجی وہی خوشیاں وہی غم
عشق کا کام لیا ہم نے شناسائی سے
نہ کبھی آنکھ بھر آئی نہ ترا نام لیا
بچ کے چلتے رہے ہر کوچۂ رسوائی سے
ہجر کے دم سے سلامت ہے ترے وصل کی آس
تر و تازہ ہے خوشی غم کی توانائی سے
کھل کے مرجھا بھی گئے فصل ملاقات کے پھول
ہم ہی فارغ نہ ہوئے موسم تنہائی سے
غزل
چھن گئی تیری تمنا بھی تمنائی سے
احمد مشتاق