EN हिंदी
چھیڑتے ہیں گدگداتے ہیں پھر ارماں آج کل | شیح شیری
chheDte hain gudgudate hain phir arman aaj-kal

غزل

چھیڑتے ہیں گدگداتے ہیں پھر ارماں آج کل

ریاضؔ خیرآبادی

;

چھیڑتے ہیں گدگداتے ہیں پھر ارماں آج کل
جھوٹے سچے کوئی کر لے عہد و پیماں آج کل

گھونٹ دے میرا گلا کچھ زور اگر اس کا چلے
ہاتھ سے میرے ہی تنگ اتنا گریباں آج کل

چڑھ گئے دیوار زنداں پر کبھی اترے کبھی
ہم بنے ہیں سایۂ دیوار زنداں آج کل

روز راتوں کو سنا کرتا ہوں یہ آواز قیس
پھاڑے کھاتا ہے مجھے خالی بیاباں آج کل

اے عروس تیغ کچھ تجھ کو حیا بھی چاہئے
کیوں گلے پڑتی ہے تو ہو ہو کے عریاں آج کل

سنگ دل کافر کا شاید ٹوٹتے دیکھا ہے کفر
ٹوٹ کر ملتے ہیں مجھ سے اس کے درباں آج کل

آ گیا ایسا ہی اب کافر زمانہ کیا کریں
دابے پھرتے ہیں بغل میں لوگ ایماں آج کل

رات دن ہے میری تربت پر حسینوں کا ہجوم
دیکھنے کی چیز ہے گور غریباں آج کل

دن کو روزہ عید شب کو ہے عجب شغل ریاضؔ
رات بھر پیتا ہے یہ مرد مسلماں آج کل