چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دلگیر کے ساتھ
خط بھی آیا کبھی تو غیر کی تحریر کے ساتھ
گو کہ اقرار غلط تھا مگر اک تھی تسکین
اب تو انکار ہے کچھ اور ہی تقریر کے ساتھ
دور ایسے نہ کھیچو پاس بھی آؤگے کبھی
وہ گئے دن جو یہ نالے نہ تھے تاثیر کے ساتھ
پیچ قسمت کا ہو تو کیا کرے اس میں کوئی
دل کو وابستگی ہے زلف گرہ گیر کے ساتھ
وہ بھی کہتے ہوئے کچھ دور تک آئے پیچھے
ہم جو اس بزم سے نکلے بھی تو توقیر کے ساتھ
یہ بھی اک وصل کی صورت تھی مگر رشک نصیب
اس کی تصویر کبھی غیر کی تصویر کے ساتھ
وعدۂ صبح پہ اب کس کو یقیں ہو قاصد
آج تو جان گئی نالۂ شب گیر کے ساتھ
کہو رنجش کا سبب کچھ نہیں میری ہی سنو
عذر تو چاہیئے کرنا مجھے تقصیر کے ساتھ
آپ دیتے ہیں اذیت ہی شکایت کی عوض
کچھ زباں سے بھی تو فرمائیے تعزیر کے ساتھ
دیکھیے مل ہی گیا آپ سے وہ شوخ نظامؔ
کام جو کچھ کرے انسان سو تدبیر کے ساتھ
غزل
چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دلگیر کے ساتھ
نظام رامپوری