چھتوں پہ آگ رہی بام و در پہ دھوپ رہی
سحر سے شام تلک بحر و بر پہ دھوپ رہی
بہت دنوں سے جو بادل ادھر نہیں آئے
درخت سوکھے رہے رہ گزر پہ دھوپ رہی
کچھ ایسے وقت پہ نکلے تھے اپنے گھر سے ہم
جہاں جہاں بھی گئے اپنے سر پہ دھوپ رہی
غروب ہو گیا سورج مگر فضاؤں میں
وہی تپش ہے کہ جیسے نگر پہ دھوپ رہی
روش روش پہ رہا آفتاب کا سایہ
جہان غنچہ و برگ و ثمر پہ دھوپ رہی
عرق عرق ہے جبیں پیرہن پسینہ ہے
بشر ہی جانے کہ کیسی بشر پہ دھوپ رہی
جہان کرب و بلا ہم کو یاد آیا ہے
کچھ ایسی اب کے ہمارے نگر پہ دھوپ رہی
رواں دواں ہمیں پھرنا تھا دشت غربت میں
کبھی جو گھر میں رہے ہیں تو گھر پہ دھوپ رہی
اسی پرندے کی صورت ہمیں بھی جینا تھا
جو دن کو اڑتا رہا بال و پر پہ دھوپ رہی
تمام دن مجھے سورج کے ساتھ چلنا تھا
مرے سبب سے مرے ہم سفر پہ دھوپ رہی
یہی تو سوچ کے اقبالؔ کو ندامت ہے
شجر کے سائے میں ہم اور شجر پہ دھوپ رہی
غزل
چھتوں پہ آگ رہی بام و در پہ دھوپ رہی
اقبال عمر