چھٹا غبار تو آنکھوں میں بھر گیا پانی
ذرا سی دیر میں سر سے گزر گیا پانی
نہ تھا خیال کہ چھت بھی ہے آسماں جیسی
تڑپ رہے تھے کہ جانے کدھر گیا پانی
لبوں پہ حرف دعا راکھ ہو گیا لیکن
دلوں میں زخم کی صورت اتر گیا پانی
اک اعتبار سی دیوار آب ہے ہر سو
مرے وجود کو زنجیر کر گیا پانی
وہ بھیگا جسم وہ پیراہن حیا کی شفق
پھر اک گلاب کو شاداب کر گیا پانی
غزل
چھٹا غبار تو آنکھوں میں بھر گیا پانی
مرتضی علی شاد