EN हिंदी
چھلکتی آئے کہ اپنی طلب سے بھی کم آئے | شیح شیری
chhalakti aae ki apni talab se bhi kam aae

غزل

چھلکتی آئے کہ اپنی طلب سے بھی کم آئے

ابن صفی

;

چھلکتی آئے کہ اپنی طلب سے بھی کم آئے
ہمارے سامنے ساقی بہ ساغر جم آئے

فروغ آتش گل ہی چمن کی ٹھنڈک ہے
سلگتی چیختی راتوں کو بھی تو شبنم آئے

بس ایک ہم ہی لیے جائیں درس عجز و نیاز
کبھی تو اکڑی ہوئی گردنوں میں بھی خم آئے

جو کارواں میں رہے میر کارواں کے قریب
نہ جانے کیوں وہ پلٹ آئے اور برہم آئے

نگار صبح سے پوچھیں گے شب گزرنے دو
کی ظلمتوں سے الجھ کر وہ آئی یا ہم آئے

عجیب بات ہے کیچڑ میں لہلہائے کنول
پھٹے پرانے سے جسموں پہ سج کے ریشم آئے

مسیح کون بنے سارے ہاتھ آلودہ
لہولہان ہے دھرتی کہاں سے مرہم آئے