چھاؤں اوروں کے لئے ہے تو ثمر اوروں کے
کام آتے ہیں ہمیشہ ہی شجر اوروں کے
وہ ہے آئینہ اسے فکر ہو کیوں کر اپنی
وہ بتاتا ہے فقط عیب و ہنر اوروں کے
جنگ میدان سے کمروں میں سمٹ آئی ہے
گھر نہ جانا کبھی بے خوف و خطر اوروں کے
عہد نو تیری سیاست کا کرم ہے کہ یہاں
جسم اپنے ہیں مگر جسموں پہ سر اوروں کے
بخشنے والے ہمیں بخش دے اپنی طاقت
اب نہ رہے پائیں گے ہم دست نگر اوروں کے
مجھ کو اپنوں نے وہ تعبیریں عطا کی ہیں کہ آج
خواب پلکوں پہ سجاتا ہوں مگر اوروں کے
یہ بھی کیا بات کہ ہر سانس ہو خود سے منسوب
زندگی نام ہی کرنا ہے تو کر اوروں کے

غزل
چھاؤں اوروں کے لئے ہے تو ثمر اوروں کے
شاہد جمال